حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ النجف سکردو کے علامہ اقبال آڈیٹوریم میں ایک باوقار ادبی کانفرنس بعنوان "مرثیہ ادبی اور اخلاقی قدروں کا خزینہ" منعقد ہوئی، جس میں ملکی سطح پر علمائے کرام اور شعراء سمیت دانشوروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اس کانفرنس کی صدارت معروف علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان کر رہے تھے جبکہ مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر شیر علی چیئرمین اردو ڈیپارٹمنٹ الحمد اسلامک یونیورسٹی تھے.
اس محفل کے مرکزی خطیب بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق، ادیب، طبیب، خطیب اور شاعر ڈاکٹر سید تقی حسن عابدی تھے، جبکہ اس تقریب کے میزبان شاعر، ادیب ،مترجم اور دانشور حجت الاسلام شیخ محمد علی توحیدی پرنسپل جامعۃ النجف تھے۔
اس محفل میں بلتستان اور ملکی سطح کے سینکڑوں علمائے کرام، دانشوروں، طلبہ نیز نامی گرامی علمی و فکری شخصیات نے شرکت کی۔ معروف شاعر اور سماجی شخصیت جناب بشارت ساقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
معروف منقبت خواں ڈاکٹر محمد حسن اور نعت خواں یاور مرغوب نے کلام انیس پیش کیا۔ نوجوان منقبت خوان سید سراج موسوی نے سلام کا نذرانہ پیش کیا۔
مولانا حسین بشیر سلطانی نے ہدیہ نعت اور قاری عرفان حیدر نے تلاوت کلام مجید کا شرف حاصل کیا۔اس تقریب میں ڈاکٹر عابدی کی نئی کتاب "قرطاس امانت "کی تقریبِ رونمائی بھی عمل میں آئی۔
اس کتاب کا تعلق فن مرثیہ گوئی سے ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر تقی عابدی نے جدید مرثیہ گوئی کے انسان ساز ادبی و اخلاقی پیغامات اور پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ فن مرثیہ گوئی اردو ادب کا وہ تابندہ گوہر ہے جس کی برابری دنیا کی کوئی زبان نہیں کر سکتی۔ اس لیے ملکی اور عالمی سطح پر اس کی ترویج امن عالم اور بقائے آدمیت کے لیے ضروری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شیر علی نے اپنے خطاب میں ڈاکٹر تقی عابدی کی نئی کتاب (جس کی رونمائی ہوئی) کے محاسن پر روشنی ڈالی نیز ڈاکٹر عابدی کی علمی و ادبی شخصیت کو اجاگر کیا۔
ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی نے فن مرثیہ گوئی کی عظمت نیز اس کی ترویج کی ملکی اور عالمی سطح پر ضرورت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے ڈاکٹر تقی عابدی سے اپیل کی کہ وہ فن مرثیہ گوئی پر ایک عظیم انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے کا کام شروع کرنے کے لیے کمرِ ہمت باندھیں ۔اس تجویز کو تمام شرکائےِ محفل نے سراہا۔
محفل کے میزبان حجت الاسلام شیخ محمد علی توحیدی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شعر و ادب خصوصا فن مرثیہ گوئی کی اہمیت، انفرادیت اور اس کی معاشرتی و مذہبی و عالمی ضرورت کو خوبصورت انداز میں اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ مرثیہ، نوحہ، قصیدہ، نعت اور شعر گوئی پہلے ایک فن تھا لیکن اسلام اور محمد و آل محمد علیہم السّلام نے انہیں عبادت میں تبدیل کیا۔
انہوں نے بلتستان میں فن مرثیہ گوئی کی حیثیت کو اجاگر کیا۔
مہمانوں نے میزبان کو اور میزبان نے مہمانوں کو اپنی کتابوں کا تحفہ پیش کیا، بعد از آں مہمانوں نے جامعۃ النجف کا دورہ بھی کیا۔
معروف ادیب و دانشور جناب محمد حسن حسرت نے جامعۃ النجف کا تعارف پیش کیا۔
جامعۃ النجف کے نائب مدیر، دانشور، شاعر اور جی بی کونسل کے ممبر حجت الاسلام احمد علی نوری نے مہمانوں کے اعزاز میں عصرانے کا اہتمام کیا۔
مہمانوں نے علم و ادب کے بارے میں جامعۃ النجف سکردو کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔









آپ کا تبصرہ